پچھلے
چند سالوں سے اردو میں نہیں لکھتی۔ انگریزی میں سب تکلفات اچھے سے نبھ جاتے ہیں ، لیکن آج فارمل
نہیں ہونا چاہتی ، بس بولنا چاہتی ہوں ۔ میں بھی زینب کے لیے بولنا چاہتی ہوں ۔آج
کل روز کوئی نئی خبر سامنے آ رہی ہے - جس سے معاشرے میں انسانیت کا فقدان کھل کر
سامنے آتا ہے – درندگی ۔ نہیں شاید درندے بھی انسانیت کے مترادف کوئی
جذبہ رکھتے ہیں - وہ بھی اپنوں کا خیال رکھتے ہیں - زینب کے قتل سے پہلے زینب
کے ساتھ پیش آنے والے شرمناک واقعہ کے بارے میں سوچنا چاہیے - صرف زینب نہیں ،
پاکستانی سوسائٹی میں 80 سے 90 فیصد بچیاں عدم تحفظ کا شکار ہیں - اِس میں زیادہ
قصور ہمارے والدین کا ہے، اس کے بعد ہمارا اپنا -
لڑکیوں میں مرد کا خوف ان کے پیدا ہونے سے پہلے ڈال دیا جاتا
ہے - لڑکی کو اُس کا لڑکی ھونا کمزوری بتایا جاتاہے - صرف ہَم اپنی بیٹیوں کو
چپ نہ رہنا سکھا دیں تو اپنے آدھے سے زیادہ مسئلوں سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں - ہَم
لڑکی کو لڑنا نہیں سکھاتے ، ہَم لڑکی کو صرف صبر شکر کرنا سکھاتے ہیں - ہمارا بیٹا
کسی لڑکی کی طرف دیکھے تو ٹھیک ، ہماری بیٹی کسی لڑکی کے بارے میں سوچے
بھی تو گناہ - جن بیٹیوں کو گھروں میں آئینوں سے زیادہ احتیاط سے سات
پردوں میں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ وہی پھول کوڑے کے ڈھیر پہ مسلے ہوئے ملتے ہیں ۔
یہ ہمارے اپنے دوہرے معیار ہیں –ہمیں اب اپنے ان اسٹینڈرڈز کو درست کرنا
ہے - اپنی بیٹی کے اندر سے خوف ختم کرنا ہے اور اسکو مضبوط کرنا ہے - لڑکی
کو اب بولنا سکھانا ہے - اور بیٹے کی تربیت میں عورت کو انسان اور قابل صد احترام
سمجھنا شامل کرنا ہے -
ارباب
اختیار کو شرم دلانے میں بھی میں اپنا حصہ ڈالوں گی۔ وزیر اعلیٰ کا زینب کے باپ کے
سامنے پریس کانفرنس میں تالیاں بجوانا شرمناک ترین حرکت تھی۔ والدین کے زخموں سے
سیاسی فائدہ کشید کرنے کی واہیات کوشش۔ سارا زور اپنی تفتیش کو ترقی یافتہ ثابت
کرنے پر تھا۔ ڈی این اے پروفائلنگ ، جیو فینسنگ ، فرانزک ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ۔آج سے
200 سال پیچھے جائیں تو ایسے کیس کو بنا ٹیکنالوجی کے محلے کے بزرگ 24
گھنٹوں میں پکڑ لیا کرتے ہیں - تو قصور کی پولیس میں کیا دماغ سے فارغ لوگ ہیں ؟
کہ کم از کم گلی کے ہر دروازے پر دستک دے کر مشکوک افراد کو نکالیں
اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے شناخت کریں۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے سیمپل لینے کی
سہولت اب ہر اسپتال میں ہے ۔ پولیس نیت سے کام کرے تو ہر شہری مدد کرے
گا - نا کہ معصوم زینب کی بری طرح کچلی ہوئی لاش پہ پیسے مانگیں۔
شہر
کے کرتا دھرتا پریس میں بلا کے اعتماد کے ساتھ بتا رہے ہیں کے ڈی این اے
ٹیسٹ ، فورینسیک ٹیسٹ ، پولی گرافک ٹیسٹ ، جیو فینسنگ کی
مدد سے مجرم کو پکڑا اور دنیا کی دوسری بڑی فرانزک لیب لاہور میں ہے ۔ایک ترقی یافتہ
انداز میں انویسٹی گیشن مکمل ہوئی - اور پریس کانفرنس میں تالیاں بجوائی گئیں
۔ سب تالیاں تمانچے بن کے ہر عام پاکستانی کے منہ پہ لگ رہیں تھیں یہ
ساری ٹیکنالوجی اسی شہر میں اس سے پہلے ہونے والے 7 سانحات میں کہاں تھی؟
ڈی
این اے ٹیسٹنگ 1986 میں برطانیہ میں ایجاد ہوئی ۔ اور 1990سے پوری دنیا میں
استعمال ہو رہی ہے - پاکستان میں بھی - 30 سال سے رائج طریقے میں جدید کیا تھا ؟
جیو فینسنگ موبائل
نیٹ ورک کے سنگلز کا رپورٹ کارڈ ہے - کس وقت کس فون نے کس موبائل ٹاور
سے کنٹیکٹ کیا ، جی ایس ایم ٹیکنالوجی 1991 میں متعارف ہوئی اور جیو فینسنگ بھی ۔2001 سے
پاکستان میں ہے-پولیگرافک ٹیسٹ پہلی جنگ عظیم کے دنوں سے استعمال
ہو رہا ہے - - یہ جدید ہے ؟ ؟
ایف
بی آئی کے بانی جے-ایڈگر ہوور
نے فرانزک ٹیسٹ کا استعمال پچھلی صدی کے آغاز میں کیا اور اورباقاعدہ
ایک الگ ڈیپارٹمنٹ بنایا –یہ ساری بات پاکستان کی پیدائش سے پہلے کی ہے۔
ان
سب میں نیا کیا تھا ؟ ؟ ؟ نیا یہ تھا کے میڈیا کا شور اور پریشر تھا۔ نیا یہ تھا
کہ سپریم کورٹ کا 72 گھنٹوں کا الٹی میٹم
تھا ۔ ورنہ تو صرف قصور شہر کی 12 بچیوں کی جانوں
اور 250 بچوں کی عزتوں کے قاتل ابھی تک کھلے عام
گھوم رہے ہیں -
اور
اب قاتل کو ذہنی مریض اور سیریل کلر ثابت کیا جا رہا ہے تا کہ اپنی
نالائقیوں پہ پردہ ڈاَلا جا سکے - زینب کی لاش جس حالت میں ملی تھی قتل کا محرک تو
وہیں مل جاتا ہے۔ 2009 میں انڈیا میں 6 سال کی
رادھا کی لاش ایسی ہی حالت میں ایک اپارٹمنٹ سے
ملی تھی اور کیس کو سیریل کلنگ کا نام دے کر بند کر دیا گیا تھا ۔ 2 سال بعد ڈارک
ویب سے رادھا کی ویڈیو ایک ہیکر کو ملی جس پہ لائیو براڈکاسٹ کا
ٹیگ تھا ، رادھا کے ساتھ کئی لوگوں نے ریپ کیا اور ننھے جِسَم کو چھریوں سے
کاٹا گیا - - اس بروڈکاسٹنگ کے کئی ملین ڈالرز ادا کیے گئے - انویسٹی
گیشن ہوئی تو سرے انڈیا کے بڑے بڑے بزنس مین اور سیاستدانوں سے
ملنے لگے - جو پولیس کی پہنچ سے باہر تھے اور کیس کو ایک دفعہ پھر بند کر دیا گیا
اور رادھا کے قاتل آج بھی کھلے عام گھومتے ہیں - زینب کے قاتل کے نام پہ
موجود 35 بینک اکاؤنٹس کی ٹریل پکڑ لیں تو ہر ایک چہرے سے نقاب اُتَر
جائے گا -
لیکن
یہ کیس بھی باقی کیسوں کی طرح بند ہو جائے گا - اور ہَم سب اپنے کمزور یاداشت کی
وجہ سے بھول جائیں گے- اگلا سانحہ ہونے تک۔
تو بجائے زبانی جمع خرچ
کرنے اور پریس کانفرنس میں تالیاں بجوانے کے قانون سازی کی جائے اور پہلے سے موجود
قوانین کو زیادہ قابل عمل بنایا جائے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ہونے کا ڈھول نہ پیٹا
جائے