5 Oct 2011

Mahvish Hina


جامِ وصل کے ہر گھونٹ کو ترسی ہوں
میں دھوپ میِں کھڑے تنہا شجر سی ہوں۔
من کے غُنچہِِ حزن کی سیرابی کو
ہر شبِ فرقت میں قطرہ قطرہ برسی ہوں۔
وہ پیہم جبر کا قائل، مَیں مسلسل صبر پہ مائل
مزاج میں بھی اپنے ہم سفر سی ہوں۔
بہاﺅں آنسو تو بھِگو دوں دھرتی کا دامن بھی
ساون کے سیاہ بادل کی چشم تر سی ہوں۔
آزمائشِ اُلفت ےہیں پر بس نہیں
دُعاﺅں میں بھی اپنی بے اثر سی ہوں۔
تمہی سے تکمیل مرے نصابِ عشق کی
تُو جذبوں کی شاعری، مَیں مُجسّم نثر سی ہوں۔
















Image Slider