یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
اب ماہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے
اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے
جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے
زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاﺅں کے بھی کردار عقابوں والے
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے